ہم کو ایک نامکمل گھڈا ہی سمجھ لو؟


یہ کہانی ہے ہماری اور ہمارے ہندوستان کی؟
بہت وقت پہلے کی بات ہے ایک بہشتی تھا، اس کے پاس دو گھڈے تھے ان گھڈو کو اس نے ایک لمبے ڈنڈے کے دو کناروں سے باندھا ہوا تھا.ایک گھڈا تھا سارا اور خوبصورت لیکن
دوسرے گھڈے میں درار تھی.
بہشتی ہر صبح دریا کے کنارے پر جا کر دونوں گھڈو میں پانی برتا اور پھر شروع ہوتا اس کا لمبا سفر بلند پہاڑی چڑھ قر مالک کے گھر تک. جب تک وہ وہاں پہنچتا ٹوٹے ہوئے گھڈے میں سے نصف پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا جبکہ سارا گھڈے میں مکمل پانی ہوتا.
بہت وقت تک ایسے ہی چلتا رہا. مالک کے گھر تک ڈیڑھ گھڈا پانی ہی پہنچتا تھاسابت گھڈے قو آپ پر بہت گھمنڈ تھا. اس ساخت بہت خوبصورت تھی اور وہ کام میں بھی مکمل آتا تھا. ٹوٹے ہوئے گھڈے قو اپنی بے بسی پر آنسو آتے. وہ اداس اور دکھی رہتا کیونکہ وہ نامکمل تھا. اسے اپنی کمی کا احساس تھا. وہ جانتا تھا کہ جتنا کام اسے کرنا چاہیے وہ اس سے آدھا ہی کر پاتا ہے.
ایک دن ٹوٹا ہوا گھڈا اپنی ناکامی کو اور برداشت نہیں کر پایا اور وہ بہشتی سے بولا '' مجھے آپ پر شرم آتی ہے مے نامکمل ہوں. میں آپ سے معذرت مانگنا چاہتا ہوں. '' بہشتی نے اس سے پوچھا '' تمہیں کس بات کی شرم ہے. '' '' آپ اتنی محنت سے پانی لاتے اور مے اسے پورا نہیں روک پاتا نصف راستے میں ہی گر جاتا ہے. میری کمی کی وجہ سے مالک کو آپ کو مکمل پانی نہیں دے پاتے '' کریک والا گھڈا بولا.
بہشتی کو ٹوٹے ہوئے گھڈے پر بہت ترس آیا. اس کے دل میں رحمت اور شفقت تھی. اس نے پیار سے ٹوٹے ہوئے گھڈے سے کہا '' آج جب ہم پانی لے کر واپس آئیں گے تب تم راستے میں حسین پھولوں کو توجہ سے دیکھنا. چڈھتے سورج کی روشنی میں یہ پھول کتنے اچھے لگتے ہیں. '' اور اس دن ٹوٹے ہوئے گھڈے نے دیکھا کہ سارے راستے کے کنارے بہت ہی خوبصورت رنگ برنگی پھول کھلے ہوئے تھے.
ان سرخ نیلے پیلے پھول کو دیکھ کر اس کا دکھی دل کچھ وقت کے لئے اپنی دکھ بھول گیا. لیکن مالک کے گھر پہنچتے ہی وہ پھر سے اداس ہو گیا. اس گندی لگا کہ پھر اتنا پانی ٹپک گیا تھانمرتاپوروك ٹوٹے ہوئے گھڈے نے پھر بہشتی سے معافی مانگی.
تب وہ بہشتی ٹوٹے ہوئے گھڈے سے بولا '' کیا تم نے توجہ دی کہ راستے میں وہ خوبصورت پھول صرف تمہاری طرف والے راستے پر ہی کھلے ہوئے تھے. میں تمہاری اس کمزوری کے بارے میں جانتا تھا اور میں نے اس کا فائدہ اٹھایا. میں نے پھولوں کے بیج صرف تمہاری طرف ہی بوئے تھے اور ہر صبح جب ہم اس راستے سے گزرتے تو تم ان پودوں کو پانی دیتے تھے. گزشتہ دو سالوں سے یہی پھول مالک کے گھر کی زینت بڈھاتے ہیں. آپ جیسے بھی ہو بہت کام ہو اگر تم نہ ہوتے تو مالک کا گھر ان خوبصورت پھولوں سے لیس نہ ہوتا. ''
خدا نے ہم سب میں کچھ کمیاں دی ہے. ہم سب اس ٹوٹے ادھورے گھڈے ذےسے ہیں پر ہم چاہیں تو ہم ان کمزوریوں پر قابو پا سکتے ہیں .ہمیں کبھی بھی اپنی کوتاہیوں سے پرجوش نہیں چاہیے ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم میں کیا کمیاں ہیں اور پھر ان کمزوریوں کے باواجود ہم اپنے چاروں طرف خوبصورتی پھیلا سکتے ہیں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں. آپ کی کمی میں ہی اپنی مضبوطی ڈھونڈ سکتے ہیں.
ایسے میں میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم کو نامکمل گھڑا ہی سمجھ لو خود بھی جیو ہم کو بھی ملک کی خدمت کے لئے رہنے دو؟
ایڈیٹر- ایس ایم فرید بھارتی

Comments